جہادبالعلم کی عصری ضرورت وتقاضے

جہادبالعلم کی عصری ضرورت وتقاضے

صبح نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن کرتے ہوئے سورة یسین کی ایت نمبر 21پرپہنچا تو کافی پیچیدہ سوالات کے جواب مل گئے۔ آپ بھی اس ایت کریمہ کا مطالعہ کریں:

اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْــٴَـلُكُمْ اَجْرًا وَّ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ ہ

اس ایت کریمہ کا سیاق وسباق یہ ہے کہ ایک بستی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مبعوث فرمائے انہوں نے قوم کو اللہ کی اطاعت کی دعوت دی تو قوم نے انہیں جھٹلایا اور معاذ اللہ منحوس قراردیا جس کا بہت ہی خوبصورت اور مدلل جواب انہوں نے یہ پیش کیا کہ منحوس کی نحوست تو اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ یعنی ہم منحوس ہوتے توہمیں پریشانی ہوتی اور تم پریشان ہو تو اس کا مطلب منحوس ہم نہیں بلکہ تم خود ہو۔ قوم ان کی اطاعت پر آمادہ نہ ہوئی تو اسی قوم کا ایک فرد اس قوم کے پاس پہنچا اور انہیں ہدایت یافتہ مرسلین کی دعوت قبول کرنے کا پیغام دیا اور بہت خوبصورت دلیل کے ذریعے انبیاء کی حقانیت کی تصدیق کی۔ وہ دلیل مذکورہ بالا ایت کریمہ تھی۔ جس کا مفہوم ہے:

 

ایسوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں

 

قارئین کرام کی نذر قرآن کریم کے مذکورہ بالا مفہوم کے تمام حصے کو پیش کرنا باعث سعادت ہوگا۔لیجیے اللہ کا کلام  پڑھیے:

 

اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ(13)اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ(14)قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ-وَ مَاۤ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَیْءٍۙ-اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ(15)قَالُوْا رَبُّنَا یَعْلَمُ اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ لَمُرْسَلُوْنَ(16)وَ مَا عَلَیْنَاۤ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(17)قَالُوْۤا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِكُمْۚ-لَىٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَیَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(18)قَالُوْا طَآىٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ-اَىٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(19)وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰى قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ(20)اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْــٴَـلُكُمْ اَجْرًا وَّ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ(21)(سورۃ یسین:21-13(

 

            ہم صرف ایت نمبر 21 کے حوالہ سے عصر حاضر اور مستقبل کے حالات پر تبصرہ کریں گے۔جس طرف تیزی سے دنیا بڑھ رہی ہے۔دنیاکو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والوں کی پیروی ہی فلاح دے گی۔کیا مادیت کی دوڑ میں مگن افرادواداروں کی پیروی فلاح دے سکتی ہے؟ قرآن کے مطابق جواب نفی میں ملتا ہے۔کیا سیاستدان، کیاجرنیل،کیا فوجی،کیا سپاہی، کیا عالم،کیا حافظ وکیا قاری اور کیااستاد الغرض وہ کون ہے جو بلا معاوضہ انسانیت کی فلاح کے لیے کمربستہ ہو؟ بلکہ اپناسرمایہ اور جان  تک کانذرانہ پیش کرنے کے لیے تیارہو۔کوئی بھی ایسا نہیں ہے۔ سب نے کمائیکے ذرائعبنائے ہیں۔علماء،قراء،اساتذہ ودیگر لوگوں کے لیے بھی بطورپروفیشن کمائی وآمدن کے ذرائع یہ نہیں ہیں۔ ان کا اصل مقصد دین کی خدمت ہوتا ہے اور ماسوا چند نااہلوں کے وہ لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ معاش ان کی ضرورت ہے سو وہ اسے اسی تناظر میں ہی لیتے ہیں۔ یہی فرق انبیاء وعام انسانوں کا واضح ہے کہ وہ عظیم ہستیاں کسی طوربھی بطورپروفیشن یا ذریعہ روزگار تعلیم وتربیت،اصلاح،فلاح،جہاد یاکسی بھی انسانیت کی خدمت کونہیں لیتے بلکہ ان کااجر اللہ کے ہاں محفوظ ہوتا ہے۔

فوج یاسپاہ میں بھی ایسے نااہل لوگ موجود ہوتے ہیں جو اسے محض ذریعہ آمدن سمجھتے ہیں۔ اس کامقصد اعلائےکلمة اللہ ہی ہے۔ انبیاء کرام اس کا صلہ بھی اللہ سے ہی لیتے ہیں۔ حلال روزگار کے کسی بھی ذریعے پرتنقید اللہ پر بہتان ہے اور کبیرہ گناہ ہے لیکن حلال روزگار کے نام پر پروفیشن کی بنیادی روح اسلام سے متصادم اوراللہ کی نافرمانی کا موجب ہو تو سنت انبیاء یہی ہے کہ اس کی اصلاح کا پیغام عام کیا جائے اور یہی اللہ ورسول کی اطاعت اورعین عبادت ہے۔ ہم یہاں دیگر ذرائع آمدن سے اعراض برت کر صرف جدید قومی ریاستوں کے تصورجہاد اوراس کے اطلاق پر تبصرہ کریں گے۔ہمارے ہاں قومی ریاستوں اورعالمی برادری کے ممبر ہونے کے حیثیت سے جہاد کی صورتیں یکسر بدل چکی ہیں۔ مسلح جہاد ناپید ہوچکا ہے جس کے احیاء کا عالمی اسلامی پیمان جدیدمسلم قومی ریاستوں کی طرف سے ابھی تک وضع نہیں ہوسکا۔ عوام کے بھاری ٹیکسوں پر ہی پوری فورس کابوجھ آن پڑا ہے اورخمس کا تصور کہاں سے آئے جب فتوحات نام کی کوئی شئے ہی موجود نہیں ہے۔ سرحدی پابندیاں عوام الناس وعلماء کے لیے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے جذبہ جہاد کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ مسلم ممالک باہم ایک دوسرے سے امداد باہمی کے مسلح معاہدوں کی پاسداری میں ناکام ہیں۔

مذکورہ بالاتمام حقائق کے تناظر میں جہاد بالعلم وجہادبالسیف میں سے جسے منضبط کرنے کی انتہائی ضرورت ہے وہ جہاد بالعلم ہے جو جہاد بالسیف کی راہ ہموار کرے۔ عالمی برادری کبھی بھی جہادبالعلم کو فروغ نہیں ہونے دے گی۔ اس لیے اسے  ذریعہ معاش بنانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے بلامعاوضہ یہی کام کرنا سنت انبیاء علیہم السلام ہے۔زبان و قلم (تحریر وتقریر) سے علم جہاد بلند کریں جس کا حتمی نتیجہ جہادبالسیف ہوگا۔اور یہ سب کام اہل علم ہی کرسکتے ہیں جس کے لیے کسی وردی یا بندوق کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی قومی  فورس کا حصہ ہونا ضروری ہے۔ بلکہ موجودہ وردی یا بندوق اور فورس اس کے موئثر اقدامات میں حائل ہوسکتی ہے۔ آزادی اظہار رائے وعمل کے بہیودہ نظریات جو نام نہاد مہذب اقوام نے خود پیداکیے وہ زبان وقلم کی راہ نہیں روک سکتے۔ البتہ مسلح جدوجہد وقت کی متقاضی ہوگی۔ اور وہ وقت بلامعاوضہ علم اسلام کی بلندی کا ہوگا۔یہی پیغام قرآن اور سنت انبیاء علیہم السلام ہے۔ محض تمغے والاونسز لینے والے اس سے محروم ہوسکتے ہیں۔ سورة یٰسین کی مذکورہ ایت نمبر 21کاایک مفہوم فلسطین وکشمیر کے موجودہ حالات ودیگرعصری تقاضوں کے پیش نظرتحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کمی کوتاہی معاف فرمائے۔آمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

ڈاکٹر عبدالباسط
23.10.23

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dear Students! We cordially welcome you to our virtual forum for preparation of Competitive Exams (Entry Test, PPSC, FPSC, GAT, NTS etc). We are going to start a series of tests and discussions via virtual mode of learning by MRSO.The interested students can get registered by filling our online registration form.

X