یوم عاشور  ۔۔۔۔ناقابل تلافی سانحہ

یوم عاشور  ۔۔۔۔ناقابل تلافی سانحہ

عبدالباسط

Basit.zafar@vu.edu.pk

کربلاء میں 10 محرم الحرام 61 ہجری کو جو کچھ بھی ہوا ۔ اس کی قیمت ہم آج بھی انتشار وافتراق کی شکل میں چکار ہے ہیں۔ بہر حال ہر سال کی طرح امسال بھی یوم عاشور پر شہدائے کربلاء کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اوران سے محبت و ہمدردی اوراظہار یکجہتی کے لیے ناصرف مسلم بلکہ غیر مسلم بھی آنسو بہانے پر مجبور ہوں گے۔ واقعتا یہ انسانی تاریخ کا المناک سانحہ ہے۔ جس پر تمام باشعور انسان بالخصوص ہر صاحب ایمان افسردہ ہوتا ہے اورکسی کے پاس بھی اس سانحہ کی کوئی وضاحت(Justification)نہیں ہے۔ اسی لیے قرون اولیٰ کے مسلمانوں اوربزرگان دین  نے اس پر ہمیشہ دکھ اورغم کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے اسباب ومحرکات اوراس سانحہ کے اثرات ونتائج پر جب بھی کلام ہوا توتین قسم کی آراء سامنے آئیں۔

1۔ اسے یزید کے سیاہ کارناموں میں شمارکیا گیا اورماقبل اصحاب علیہم الرضوان کے معاملہ میں سکوت اختیارکیا گیا۔

2۔ اس سانحہ کی آڑ میں اصحاب علیہم الرضوان پر طعن وتشنیع ،تکذیب وتفریق اوردین میں تشکیک کی راہ تلاش کی گئی۔

3۔اس سانحہ کی بناء پر رفض وناصبیت میں سے کسی ایک طرف رحجان بڑھنے کا امکان پیدا کیا گیا۔جس سے انتشار کی راہ نکالی جاتی رہی۔

جہاں تک ہم نے اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کے مطابق پہلی رائے ہی محمود نظر آئی۔ دوسری رائے میں اسلام دشمن عناصر کے عزائم پوشیدہ نظر آئے اورتیسری رائے انتہائی قابل مذمت ہے کیونکہ اس سے امت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ میں اس تحریر میں کسی بھی فرد واحد کی طرف کچھ بھی منسوب نہیں کروں گا تاہم کسی کی عبارت سے جو تاثر پیدا ہونے کا امکان ہے اس پر ضرورکلام کروں گا۔ میرا موقف جمیع مسلمین اورجمہور امت کے ساتھ ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کامل لائے تھے تو اس دین میں آپ کے بعد آپ کے جانشین کے بارے میں کیا ہدایات تھیں[1]؟ بالکل واضح اورسیدھا سادھا جواب موجود ہے کہ جو سب سے زیادہ اللہ کے قریب ہو یعنی جو امت میں سب سے افضل ہو وہی سب سے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہوگا[2]۔ اسی پر امت کا اجماع ہوا اورآج تک جمہور امت کا یہی اعتقاد ہے۔ کیونکہ اللہ نے بزرگی کا معیار تقویٰ بتایا اورمتقین کی امامت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طلب کی[3] تو یہ بردجہ اولیٰ نص قطعی سے امامت صدیق رضی اللہ عنہ پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ گویا اصل مسئلہ یہیں سے ہی پیدا ہوتا ہے اور امت میں جس فکر نے نیابت وامامت کو مشکوک کیا اس کا تعلق کم ازکم جماعت المسلمین سے نہیں ہوسکتا۔          میں یہاں وائل حلاق کی وہ عبارت رکھتا ہوں جو جمہور مستشرقین کی فکر کی عکاس ہے۔ تو اس سے آُپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ جس فکر نے اصحاب علیہم الرضوان میں انتشار چاہا یا نیابت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکوک کرنے کی سعی کی۔ وہی فکر سلام میں انتشار کا سبب بنی۔ کسی فرد سے اختلاف کرنا اورکسی کی مخالفت کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس لیے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شقیق القلب ہی یہ تاثر لے کر جائے گا کہ انہوں نے صحابہ کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ لیجیے پہلے اس عبارت کو پڑھیے:

In 11/632 the Prophet died, leaving unsettled the question of succession. The dispute over governance was resolved in favor of Abu Bakr, a distinguished Meccan of senior age who had adopted Islam when Mohammad was still preaching his new religion in the city. Abu Bakr’s short tenure as caliph, however, allowed him to accomplish little more than to quell the so-called apostasy rebellions that erupted among the Arab tribes upon the death of the Prophet. By the time of his death in 13/634, order was restored, the tribes having been largely subdued. With this reassertion of Islamic dominance over the entire Arabian Peninsula, the nascent state emerged all the more powerful, with a reinforced assurance of its military strength and religious conviction.[4]

اس عبارت سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ دین کی تکمیل ابھی باقی تھی۔ یا فلسفہ اسلام ابھی ادھورا ہے۔ معاذا للہ۔ اورصحابہ یا مابعد لوگوں نے ہر دور میں اسے پروان چڑھانے میں بھرپور کرداراداکیا ہے۔گویا دین اسلام انسانی فکروعمل کے مطابق پروان چڑھا۔ حالانکہ  حقیقتا انسانی فکروعمل دین اسلام کے مطابق تعمیر ہوئے۔  اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جانشین اپنے خاندان سے ہی منتخب کرکے اعلان کرجاتے پھر بھی یہی لوگ کہہ رہے ہوتے کہ روم وفارس کے شاہی طرز پر ایک نئی سیاسی حکومت کی بناء پڑی اور مذہب کا نام استعمال کیا گیا معاذاللہ۔ اگرچہ انبیاء بنی اسرائیل  میں خاندانی طورپر بادشاہت ونبوت وراثتا منتقل بھی ہوتی تھی۔جیسے  حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت  ونبوت ورثہ  میں ملی تھی۔ اگرچہ یہ بھی دین کا ہی تصور ہے۔ [5]،تاہم انبیاء علیہم السلام کی حقیقی میراث علم ہے۔اس لیے  خاتم النبیین ہونے کا تقاضا خالق کریم عزوجل نے پورا کیا۔ اورماکان محمد ابااحد منکم[6] کے حکم سے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف بخشا۔اوررسول کریم صلی اللہ علیہ ولسلم نے اپنی نیابت وخلافت کے واضح احکامات دینے کے بعد کسی کو بھی نامزد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ اور یہ معاملہ امرالہیٰ ومشیعت خداوندی کے مطابق طے پایا۔آج بھی ہم قرآن کے مطابق اپنی سیادت کا انتخاب کرلیں تو تمام مسائل پر قابو پانا آسان ہوجائے۔ لیکن دن بدن جو باطل افکار پروان چڑھ رہی ہیں ان کے پیش نظر حکم ربانی کے نفاذکا انتظارکیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔[7] سب سے بڑھ کر ہم یہی کرسکتے ہیں کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے منہج کی طرف لوگوں کو لائیں اورعلمی وعملی بے راہروی سے بچائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عصر حاضر کے فتنوں سے محفوظ ررکھے اوردین اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔                                                                                                                                                       آمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

 



[1] تفصیل کے لیے”الاحکام سلطانیہ،از ابوالحسن الماوردی”کا مطالعہ مفید ہے۔

[2] اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ(سورۃ الحجرات،ایت نمبر13)

[3] وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(سورۃ الفرقان،ایت نمبر74)

[4]Wael B. Hallaq, The origins and evolution of Islamic law, Cambridge university press, page#29.

[5] ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِـيْم (سورۃ الجمعہ،ایت نمبر04)

[6] سورۃ احزاب،ایت نمبر40

[7] وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ(سورۃ الیوسف،ایت نمبر21)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Dear Students! We cordially welcome you to our virtual forum for preparation of Competitive Exams (Entry Test, PPSC, FPSC, GAT, NTS etc). We are going to start a series of tests and discussions via virtual mode of learning by MRSO.The interested students can get registered by filling our online registration form.

X